پاکستان انٹرنیشنل پریس ایجنسی

سعودی عرب: غیر ملکی ملازمین کے لیے ’کفالہ‘ قواعد میں نرمی کا اعلان

سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ وہ ‘کفالہ’ کا نظام کہلانے والے ان قواعد و ضوابط میں نرمی کرے گا جو آجروں کو تقریباً ایک کروڑ تارکِ وطن ملازمین کی زندگیوں پر کنٹرول فراہم کرتے ہیں۔

ان اصلاحات کے بعد نجی شعبے کے ملازمین آجر کی مرضی کے بغیر اپنی ملازمت تبدیل بھی کر سکیں گے اور ملک چھوڑ بھی سکیں گے۔

سعودی حکومت نے کہا ہے کہ وہ ‘کام کے ماحول کو مزید مؤثر اور بہتر بنانے’ کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کفالہ یعنی سپانسرشپ کا موجودہ نظام ملازمین کے استحصال کی راہ ہموار کرتا ہے۔

ایک کارکن نے ان اصلاحات کو اہمیت کا حامل قرار دیا مگر انھوں نے کہا کہ اس نظام کے کچھ حصے اب بھی برقرار ہیں۔

انھوں نے اس نظام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

سعودی عرب میں رائج اس نظام کے تحت سعودی شہری اپنے ملک میں روزگار کے سلسلے میں آنے والے غیر ملکی شہریوں کو سپانسر کرتے ہیں جسے کفالہ کہا جاتا ہے۔

  • سپانسر کرنے کے بدلے سعودی شہریوں کو ایک مختص رقم فراہم کرنی پڑتی ہے۔
  • کفالہ نظام سعودی عرب میں گذشتہ سات دہائیوں سے رائج ہے جس کے تحت سعودی عرب میں کام کرنے والا غیرملکی کارکن اپنے مالک کا پابند ہو جاتا ہے۔
  • اپنی ملازمت کے آغاز میں غیرملکی کارکن اپنا پاسپورٹ اور تمام تر شناختی دستاویزات اپنے کفیل کے پاس جمع کرانے کا پابند ہوتا ہے۔
  • اس نظام کا اطلاق مقامی عرب آبادی کے گھروں میں کام کرنے والے ذاتی ملازمین سے لے کر بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین پر ہوتا ہے۔
  • کارکن اپنے کفیل کی اجازت کے بغیر اپنی ملازمت تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ اپنے کفیل کی اجازت کے بغیر ملک چھوڑ سکتا ہے۔
  • کفالہ کے نظام تحت بعض کفیل اپنے کارکنوں سے غلاموں جیسے سلوک کرتے ہیں اور غیر ملکی کارکنوں میں کفیلوں کے خلاف شکایات عام سننے میں آتی ہیں۔

یہ ملازمین اب ملازمت تبدیل کرنے یا چھوڑنے کے لیے اپنے آجر کی اجازت کے پابند نہیں ہوں گے، اس کے علاوہ وہ آجر کی اجازت کے بغیر ملک سے باہر بھی جا سکیں گے۔یہ ملازمین اب براہِ راست حکومتی خدمات کے لیے درخواست دے سکیں گے اور اپنے آجروں کے ساتھ ان کے معاہدے ڈیجیٹل ہوا کریں گے۔نائب وزیر عبداللہ بن نصر ابو ثنین نے ریاض میں میڈیا سےبات کرتے ہوئے کہا: ‘اس ادام کے تحت ہم ایک پرکشش لیبر مارکیٹ بنانا اور کام کی صورتحال کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ان اصلاحات سے وژن 2030 کے مقاصد حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ یاد رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا اعلان کردہ وژن 2030 کا بنیادی مقصد ملکی معیشت کا انحصار تیل پر سے ہٹانا ہے۔مگر ہیومن رائٹس واچ میں سینیئر محقق روثنا بیگم نے بی بی سی کو بتایا کہ وزارت کا اعلان ‘اہمیت کا حامل ہے اور غیر ملکی ملازمین کے کام کے حالات بہتر بنا سکتا ہے۔تاہم انھوں نے کہا کہ ‘یہ کفالہ نظام کا مکمل خاتمہ نہیں ہے۔’بظاہر ملازمین کو اب بھی سعودی عرب میں داخلے کے لیے آجر کی ضرورت پڑے گی اور آجروں کے پاس اب بھی ملازمین کے رہائشی پرمٹ کی تجدید یا کسی بھی وقت منسوخی کا اختیار ہوگا۔انھوں نے کہا کہ ‘اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ملازمین اب بھی استحصال کے شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ آجروں کے پاس اب بھی اُن پر یہ طاقت ہوگی۔‘اس کے علاوہ ان اصلاحات کا بظاہر تارکِ وطن گھریلو ملازمین پر اطلاق نہیں ہوتا جو اس ملک کے کمزور ترین افراد میں سے ہیں۔

مزید کہا کہ آجروں نے گھریلو ملازمین کو آرام یا چھٹی کے بغیر کیسے طویل دورانیے تک کام کرنے پر مجبور کیا، انھیں اجرتوں سے محروم رکھا یا انھیں گھروں تک محدود رکھا۔کچھ ملازمین جسمانی اور جنسی استحصال کا نشانہ بھی بنایا گیا۔اس کے علاوہ سعودی عرب میں ہزاروں غیر رجسٹرڈ ملازمین ہیں اور حکام نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا کہ کیا وہ اُن ملازمین کو اجازت دیں گے یا نہیں، جن میں سے کئی اپنی کوئی غلطی نہ ہونے کے باوجود ہی دستاویزات سے محروم ہو چکے ہیں، کیا وہ خود کو ریگولرائز کروا سکیں گے یا نہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.