پاکستان انٹرنیشنل پریس ایجنسی

مختلف امریکی ریاستوں میں صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ کا عمل شروع ہوگیا

مختلف امریکی ریاستوں میں صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ کا عمل شروع ہوگیا ہے اور پولنگ اسٹیشنز پر ووٹرز کی قطاریں لگی ہوئی ہے۔سب سے پہلے کینیڈا کی سرحد کے قریب ریاست نیو ہیمپشائر کے چھوٹے سے گاؤں سے ووٹنگ کا آغاز ہوا ۔

ماہرین نے اس مرتبہ توقع سے زیادہ ٹرن آؤٹ کی پیش گوئی کی ہے  جب کہ قبل از وقت ووٹنگ اور ڈاک کے ذریعے تقریباً 10کروڑ سے زائد امریکی اپنا حق رائے دہی استعمال کرچکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق قبل ازوقت ووٹ کاسٹ کرنے والوں میں 45 فیصد لوگوں وہ ہیں جو ڈیموکریٹس یعنی جو بائیڈن کے حامی ہیں جب کہ 30.5 فیصد ری پبلکن جماعت یعنی ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی ہیں۔

امریکی صدارتی انتخاب میں موجودہ صدر اور ری پبلیکن امیدوار ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار جوبائیڈن کے درمیان سخت مقابلہ ہے جب کہ مختلف انتخابی جائزوں(پولز) میں  جوبائیڈن کو ٹرمپ پر واضح برتری حاصل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ  متعدد بار انتخابات میں دھاندلی ہونے کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں اور انہوں نے ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کی مخالفت کی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایری زونا، جارجیا، وسکونسن، پنیسلوینیا اور فلوریڈا کے علاوہ ٹیکساس، شمالی کیرولائنا، اوہایو، مشی گن اور منی سوٹا کی ریاستیں ‘سوئنگ اسٹیٹس’ ہیں یعنی یہاں کسی ایک امیدوار کی برتری نہیں اور ملے جلے رجحان کے باعث کوئی بھی جیت سکتا ہے جس سے الیکشن میں بازی پلٹ سکتی ہے۔

خیال رہے کہ زیادہ ووٹ لینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ امیدوار صدر بن جائے گا کیونکہ امریکا میں صدر کا انتخاب براہ راست عام ووٹر نہیں کرتے بلکہ یہ کام الیکٹورل کالج کا ہے۔امریکا کی ہر ریاست میں الیکٹورل کالج کے ارکان کی تعداد اس کی آبادی کے تناسب سے طے  ہے اور الیکٹرز کی کل تعداد 538 ہے۔

امریکہ کا صدر بننے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 538 میں سے 270 یا اس سے زیادہ الیکٹرز کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ ٹرمپ کو تو سب جانتے ہی ہیں، وہ امریکا کے موجودہ صدر اور وہاں ایک کاروباری شخصیت ہیں جو سنہ 2016ء کے  صدارتی انتخابات کے نتیجہ میں ریاست ہائے متحدہ کے 45 صدر منتخب ہوئے تھے۔

متنازع ترین ہونے کے باوجود امریکا کے صدارتی انتخاب جیتنے والے ڈونلڈ ٹرمپ 14 جون 1946ء کو نیویارک کے علاقے کوئنز میں پیدا ہوئے۔ 13 سال کی عمر میں انہیں نیویارک ملٹری اکیڈمی بھیجا گیا جہاں وہ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسیات طلبہ کا حصہ بھی بنے۔

ٹرمپ نے 1968ء میں یونیورسٹی آف پینسلوینیا سے معاشیات میں گریجوایشن کی،بزنس ٹائیکون فریڈ ٹرمپ کے بیٹے ڈونلڈ نے والد کے قرض سے ذاتی کاروبار شروع کیا۔ 1971ء میں خاندانی کمپنی کا کنٹرول حاصل کیا اور اُس کا نام بدل کر ٹرمپ آرگنائزیشن رکھا اور  اپنے ہوٹلوں، کسینو اور تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے ملک گیر شہرت حاصل کی۔

70 سالہ ٹرمپ کے مطابق، ان کے اثاثے 10 بلین ڈالر سے زائد ہیں۔ ٹرمپ کی پہلی دو شادیاں ناکام رہیں۔ سابق ماڈل میلانیا کناوس سے ٹرمپ نے 2005ء میں تیسری شادی کی۔ ٹرمپ شوبز انڈسٹری اور ذرائع ابلاغ سے بھی خاصے متعلق رہے۔

انہوں نے 1987ء میں پہلی بار ٹرمپ نے صدارتی انتخاب لڑنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ 2000ء میں انہوں نے ریفارم پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے کی کوشش کی جب کہ 2008ء میں ٹرمپ ایک بار پھر اس وقت توجہ کا مرکز بنے جب انہوں نے صدارتی امیدوار باراک اوباما کی جائے پیدائش امریکا کی بجائے کینیا کو قرار دیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے جون 2015ء میں ریپبلکن پارٹی کے ٹکٹ پر صدارتی انتخابات لڑنے کا اعلان کیا اور حریفوں کو مات دیتے ہوئے پارٹی کی نامزدگی حاصل کر لی۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ پے در پے اسکینڈلوں، متنازع اور نفرت انگیز بیانات ٹرمپ کی انتخابی مہم پر پوری طرح چھائے رہے اور 2016ء کے امریکی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے امیداوار ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 45 ویں صدر منتخب ہو ئے۔ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے جو بائیڈن صدارتی امیدوار کی حیثیت سے انتخابات2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مد مقابل ہیں ۔ صدارت کا اصل مقابلہ انہی دو سیاسی رہنماؤں کے درمیان ہے ۔

جوبائیڈن نے 20 نومبر 1942 کو امریکی ریاست پینسلونیا کے شہر اسکرینٹن کے ایک محنت کش آئرش کیتھولک خاندان میں آنکھیں۔ 1968 میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد1972 میں ریاست ڈلاویئر کی ڈیموکریٹک پارٹی سے بطور کامیاب سینیٹ امیدوار اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ 1973 سے2009 تک ایک کامیاب سینیٹرز کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دیے۔2009میں امریکا کے 47 ویں نائب صدر منتخب ہونیوالے جوبائیڈن سابق  امریکی صدر بارک اوباما کے دونوں ادوار میں ان کے نائب صدر رہے ہیں۔

 امریکی فیڈرل الیکشن کمیشن کے مطابق امریکا میں ان دونوں کے علاوہ بھی تقریباً ایک ہزار 214 افراد ایسے ہیں جو الیکشن 2020 میں امریکی صدر کے عہدے کے امیدوار ہیں، ان افراد میں مختلف پارٹیوں کے علاوہ آزاد امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں، تاہم اکثر افراد ان جماعتوں کے نام سے ہی واقف نہیں ہیں، ایسی جماعتوں کو ‘تھرڈ پارٹی’ کہاجاتا ہے اس کے علاوہ صدارتی دوڑ میں آزاد امیدوار بھی شامل ہوتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق فی الحال ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتاکہ امریکا میں تھرڈ پارٹی امیدواروں میں سےکوئی صدر بن سکے تاہم یہ ضرور ہےکہ یہ امیدوار ری پبلکن اور ڈیموکریٹس امیدواروں کے ووٹ ضرور متاثرکرتے ہیں۔

گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ امریکا میں تھرڈ پارٹی امیدوار زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کرسکے جس کی بڑی وجہ کورونا وائرس اور معاشی مشکلا ت ہیں جس کی وجہ سے یہ امیدوار بڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلانے میں ناکام رہے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.